پاکستان امریکا تعلقات کو پاک چین دوستی کے تناظر میں نہ دیکھا جائے، اسحاق ڈار


نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے پاکستان امریکا کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتا ہے لیکن ان تعلقات کو چین کے ساتھ دوستی کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ تقریباً 9 سال بعد پاکستان اور امریکا کے وزرائے خارجہ کی ملاقات ہوئی ہے، ملاقات میں دو طرفہ امور پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا، سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو سے کہا پاکستان امریکا کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتا ہے لیکن ان تعلقات کو پاک چین شراکت داری کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔

پاکستان کے نائب وزیراعظم، وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے نیویارک، امریکا میں پاکستانی کمیونٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ  جب بھی معاشی حالات خراب ہوتے ہیں، مجھے یاد کیا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت مزید 6 ماہ رہتی تو ملک ڈیفالٹ کرچکا ہوتا۔ اب ملک میں مالی استحکام آچکا ہے۔ ڈیفالٹ کا خطرہ اب دفن ہوچکا۔ اللہ کے فضل سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ہدف پاکستان کو جی 20 میں شامل کرنا ہے۔

مسلم لیگ ن کی حکومت کو درپیش 2 چیلنجز

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو 2 چیلنجز درپیش تھے، ایک معاشی اور دوسرا سیاسی۔ معیشت کے حوالے سے پاکستان میں بہت بہتری آئی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ 3 سال کے قلیل عرصہ میں کیا کچھ ہوا۔ حکومت کی کوشش سے معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ پاکستان نے پہلی بار آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کیا۔ مہنگائی کی شرح دوہرے ہندسہ سے بہت نیچے آچکی ہے، جی ڈی پی کی گروتھ اس قدر بڑھی کہ جس کے خواب دیکھے جاتے تھے۔

نائب وزیراعظم نے کہا کہ 2018 سے پہلے پاکستان دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا لیکن پھر  4 برسوں میں 2022 میں پاکستان اس رینکنگ میں 47 ویں نمبر پر چلا گیا۔ یہ نتیجہ تھا 2014 کے ایڈونچر کا۔ پھر ہمارے لیے بہت مشکل فیصلہ تھا کہ تحریک عدم اعتماد لائیں یا نہ لائیں۔ اس وقت جسے ذرا بھی شعور تھا کہ پاکستان دیوالیہ  ہونے کے دھانے پر پہنچ چکا ہے۔ ہر کوئی دیکھ رہا تھا کہ سری لنکا میں کیا ہوچکا ہے۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ بس!! 6 ماہ رک جائیں، عمران خان حکومت خود ہی گر جائے گی۔ واقعتاً ایسا ہورہا تھا ، تاہم مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے تحریک عدم اعتماد لانے کا مشکل فیصلہ کیا۔

 انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کا دیوالیہ ہونا بعض بین الاقوامی اداکاروں کو بھی اچھا لگتا تھا کہ یہاں ہر کوئی ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو۔ ملک ڈی ریل ہو اور پھر پاکستان سے ایٹمی پروگرام پر  مذاکرات کیے جائیں۔ میں بہت واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ وہ بین الاقوامی اداکار پاکستان میں لگا ہوا تماشہ دیکھ رہے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ پاکستان دیوالیہ ہوجائے۔

’تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ مشکل تھا‘

اسحاق ڈار نے کہا کہ میاں محمد نواز شریف نے مشکل فیصلہ کیا کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے اور اگر کامیاب ہوتی ہے تو میاں محمد شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا  جائے۔ ہمیں  16 ماہ کی حکومت ملی اور اس عرصہ میں بھی بار بار کہا جاتا تھا کہ فلاں تاریخ کو پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا۔ 2023 میں فچ نے بھی پیش گوئی کردی تھی کہ 30 جون 2023 سے پہلے پاکستان دیوالیہ ہوجائے گا۔ ان 16 مہینوں کے آخری 12 ماہ میں مجھے یاد  کیا گیا۔ جب بھی ملک کے معاشی حالات خراب ہوتے ہیں تو اسحاق  ڈار یاد آجاتا ہے۔ پھر ہم نے دن رات جدوجہد کی۔ میں نے کہا کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اب مسلم لیگ ن کی حکومت کی کوشش ہے کہ  وہ فارن ریزروز بڑھانے اور مہنگائی کی شرح کو کم کرنے کے اپنے ہی ریکارڈ توڑے۔ اور یہ ریکارڈ  ٹوٹے گا۔  اب استحکام آچکا ہے۔  جو بھی معاشی اشاریے اٹھا لیں  وہ ٹھیک آ رہے ہیں۔ پاکستان عمران خان کے دور میں  47 ویں نمبر پر چلا گیا تھا، وہ اب واپس 40 ویں  نمبر پر آچکا ہے۔ اب ہمارا ہدف ہے کہ اس دور کے اختتام پر ملک جی 20 میں شامل ہوجائے یا پھر اس کے قریب قریب ہو۔

میاں نواز شریف مسلسل حکومت کی رہنمائی کر رہے ہیں

 نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے کہا کہ  میاں نواز شریف مسلسل حکومت کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کو بھی اور پنجاب حکومت کو بھی۔ ہماری کوشش ہے کہ پاکستان کو ایک پھلتا پھولتا ملک بنائیں جس سے نسلیں لطف اٹھائیں۔ ہمارے آنے سے پہلے پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہوچکا تھا۔ نہ کوئی یہاں آتا تھا اور نہ ہی کوئی پاکستان کو بلاتا تھا۔ آج پاکستان سفارتی طور پر سب سے فعال ممالک میں شامل ہے۔ اب ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کہاں کہاں جائیں اور کس کس کو ملک میں آنے دیں۔  الحمدللہ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سفارتی تنہائی اس قدر کم ہوچکی ہے کہ  2012 میں جب ہم نے سلامتی کونسل کے غیر مستقل ارکان کا انتخاب لڑا تو ہم صرف ایک ووٹ جیتے تھے لیکن گزشتہ برس ہم نے الیکشن لڑا تو ہم نے 181 ووٹ لیے اور ہماری مخالفت میں صرف 5 ووٹ آئے۔ اس بار جب ہمیں سلامتی کونسل کی صدارت کرنے کا موقع ملا تو ہم نے جو تھیم پیش کی، وہ تنازعات کے پرامن حل کے عنوان سے تھی۔ یہی اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہم نے اس حوالے سے  قرارداد پیش کی، بعض ممالک نے مخالفت بھی کی لیکن یہ قرار داد منظور ہوئی۔ اب جب تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی لڑائی چل رہی ہے، اسے رکوانے کے لیے سلامتی کونسل میں ہماری پیش کردہ اورمنظور کردہ قرارداد کا حوالہ دیا جارہا ہے۔

پاکستان اور ازبکستان ریلوے لائن منصوبہ سے متعلق خواب

انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ 2 برسوں کے دورن افغانستان پر بہت سخت محنت کی ہے۔ ہمارا خواب تھا کہ اگر پاکستان اور ازبکستان کی ریلوے لائن کو مربوط کردیا جائے تو ہم پوری دنیا سے مل جائیں گے۔ کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں سے مال اس ریلوے لائن کے ذریعے وسطی ایشیا اور یورپ تک جاسکتا ہے۔ اس سے بہتر موقع شاید ہی کوئی ہو۔  اس منصوبے میں شامل ہونے کے لیے افغانستان نے کچھ وقت لیا۔ بعض ممالک کی کوشش تھی کہ ازبکستان سے ریلوے بذریعہ ہرات ایران کی طرف جائے۔

اسحاق ڈار نے اس دوران کابل میں پیے جانے والے چائے کے ایک مشہور کپ کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ چائے کے اس کپ نے ملک میں دہشتگردی کو زندہ کردیا ہے۔ ساتھ ہی مجرموں کو رہا کردیا گیا۔ پھر سرحدوں کو کھول دیا گیا کہ ٹی ٹی پی  والے ہمارے بھائی ہیں، وہ پاکستان میں آجائیں۔35 سے 40 ہزار طالبان پاکستان آ گئے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے سوات میں پاکستان کا جھنڈا جلایا تھا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کون سا پاکستان بہتر تھا؟  میاں نواز شریف کی قیادت میں دہشتگردی کے خلاف اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا تھا۔ مغرب والے کہتے تھے کہ میاں نواز شریف! اگر آپ فاٹا سے دہشتگردی ختم کردیں تو آپ پوری دنیا کے ہیرو ہوں گے۔ پھر آپ دیکھیں کہ 2017 میں خودکش دھماکوں کی شرح کس قدر کم ہوچکی تھی۔ ہم نے ہر سال 100 ملین ڈالر دہشتگردی کے خلاف خرچ کیے۔ اگلے دور حکومت میں پاکستان میں جہاں کوویڈ کی وبا آئی، وہاں دہشتگردوں کی وبا بھی آئی۔

 نائب وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ تعلق رکھنا چاہیے اور ہم نے تعلق رکھا ہوا ہے۔  ہمارا ان سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے پاکستان میں دہشتگردی نہ ہونے دیں، اس کے علاوہ ہم نے ان سے  مختلف شعبوں میں معاہدے کیے ہیں۔ اب ہم ان کے رویے میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔

عافیہ صدیقی کا ایک بار پھر تذکرہ

نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار نے نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ’پاکستان کی بیٹی‘ قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کو ایک ’قومی مسئلہ‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے مخلصانہ اور مسلسل سفارتی کوششیں کی ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے ان کی رہائی کے لیے ہر ممکن سفارتی راستہ اپنایا، یہاں تک کہ صدر جو بائیڈن کی مدتِ صدارت ختم ہونے سے قبل ان کے لیے معافی کی درخواست بھی دی۔

اسحاق ڈار نے ڈاکٹر عافیہ کے معاملے کو انسانی ہمدردی کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد مسلسل یہ معاملہ واشنگٹن کے ساتھ اٹھاتا رہا ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر اٹلانٹک کونسل میں عافیہ صدیقی کے تذکرہ کے حوالے سے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہاں عمران خان کے بارے میں ایک سوال ہوا تھا۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی ملک کا سرمایہ ہیں۔

جدید تر اس سے پرانی